چہروں پہ زر پوش اندھیرے پھیلے ہیں
اب جینے کے ڈھنگ بڑے ہی مہنگے ہیں
ہاتھوں میں سورج لے کر کیوں پھرتے ہیں
اس بستی میں اب دیدہ ور کتنے ہیں
قدروں کی شب ریزی پر حیرانی کیوں
ذہنوں میں اب کالے سورج پلتے ہیں
ہر بھرے جنگل کٹ کر اب شہر ہوئے
بنجارے کی آنکھوں میں سناٹے ہیں
پھولوں والے ٹاپو تو غرقاب ہوئے
آگ اگلے نئے جزیرے ابھرے ہیں
اس کے بوسیدہ کپڑوں پر مت جاؤ
مست قلندر کی جھولی میں ہیرے ہیں
ذکر کرو ہو مجھ سے کیا طغیانی کا
ساحل پر ہی اپنے رین بسیرے ہیں
اس وادی کا تو دستور نرالا ہے
پھول سروں پر کنکر پتھر ڈھوتے ہیں
عنبرؔ لاکھ سوا پنکھی موسم آئیں
اولوں کی زد میں انمول پرندے ہیں
غزل
چہروں پہ زر پوش اندھیرے پھیلے ہیں
عنبر بہرائچی