EN हिंदी
ہنستے ہوئے چہرے میں کوئی شام چھپی تھی | شیح شیری
hanste hue chehre mein koi sham chhupi thi

غزل

ہنستے ہوئے چہرے میں کوئی شام چھپی تھی

عنبر بہرائچی

;

ہنستے ہوئے چہرے میں کوئی شام چھپی تھی
خوش لہجہ تخاطب کی کھنک نیم چڑھی تھی

جلووں کی انا توڑ گئی ایک ہی پل میں
کچنار سی بجلی میرے سینے میں اڑی تھی

پیتا رہا دریا کے تموج کو شناور
ہونٹوں پہ ندی کے بھی عجب تشنہ لبی تھی

خوش رنگ معانی کے تعاقب میں رہا میں
خط لب لعلیں کی ہر اک موج خفی تھی

ہر سمت رم ہفت بلا شعلہ فشاں ہے
بچپن میں تو ہر گام پہ اک سبز پری تھی

صدیوں سے ہے جلتے ہوئے ٹاپو کی امانت
وہ وادئ گل رنگ جو خوابوں میں پلی تھی

جلتے ہوئے کہسار پہ اک شوخ گلہری
منہ موڑ کے گلشن سے بصد ناز کھڑی تھی

نیزے کی انی تھی رگ انفاس میں رقصاں
وہ تازہ ہواؤں میں تھا کھڑکی بھی کھلی تھی

ہم پی بھی گئے اور سلامت بھی ہیں عنبرؔ
پانی کی ہر اک بوند میں ہیرے کی کنی تھی