کیوں نہ ہوں شاد کہ ہم راہ گزر میں ہیں ابھی
دشت بے سبز میں اور دھوپ نگر میں ہیں ابھی
سرخ آذر ہی مرے زخموں پہ نہ ہو یوں مسرور
کئی شہپر مرے ٹوٹے ہوئے پر میں ہیں ابھی
ان دھندلکوں کی ہر اک چال تو شاطر ہے مگر
نقرئی نقش مرے دست ہنر میں ہیں ابھی
عمر بھر میں تو رہا خانہ بدوشی میں ادھر
کچھ کبوتر مرے اسلاف کے گھر میں ہیں ابھی
ایک مدت سے کوئی سبز نہ ابھرا اس میں
گھونسلے چیل کے بے برگ شجر میں ہیں ابھی
شہر کی دھول فضائیں ہی مقدر میں رہیں
آم کے بور مگر میری نظر میں ہیں ابھی
راکھ کے ڈھیر پہ ماتم نہ کرو دیکھو بھی
کئی شعلے کسی بے جان شرر میں ہیں ابھی
ایک ساحر کبھی گزرا تھا ادھر سے عنبرؔ
جائے حیرت کہ سبھی اس کے اثر میں ہیں ابھی
غزل
کیوں نہ ہوں شاد کہ ہم راہ گزر میں ہیں ابھی
عنبر بہرائچی