بریدہ بازوؤں میں وہ پرند لالہ بار تھا
شکاریوں کے غول میں عجیب انتشار تھا
ہرے پھلوں کو توڑتی ہوئی ہوا گزر گئی
بجھی بجھی فضا میں ہر درخت سوگوار تھا
سفر کا آخری پڑاؤ آ گیا تھا اور میں
جو ہم سفر بچھڑ رہے تھے ان پہ اشک بار تھا
گئے تھے ہم بھی بحر کی تہوں میں جھومتے ہوئے
ہر ایک سیپ کے لبوں میں صرف ریگزار تھا
دھلی دھلی فضا میں ہو گئی عبث وہ جستجو
کہ منظر نظر نواز تو پس غبار تھا
دم سحر نہ جانے جانے کون آ گیا اسے
رواں تھے اشک انکھڑیوں سے ہاتھ میں ستار تھا
جو وقت آ گیا تمام تیر ٹوٹتے گئے
اسی نئی کماں پہ تو مجھے بھی اعتبار تھا
برس رہی تھی آگ اس دیار سنگ میں مگر
مرے لہو میں گل فشاں وہ چمپئی عذار تھا
عجیب تھی سرشت بھی ہمارے دھان پان کی
کبھی تو بحر بیکراں کبھی سراب زار تھا
غزل
بریدہ بازوؤں میں وہ پرند لالہ بار تھا
عنبر بہرائچی