دروازہ وا کر کے روز نکلتا تھا
صرف وہی اپنے گھر کا سرمایہ تھا
کھڑے ہوئے تھے پیڑ جڑوں سے کٹ کر بھی
تیز ہوا کا جھونکا آنے والا تھا
اسی ندی میں اس کے بچے ڈوب گئے
اسی ندی کا پانی اس کا پینا تھا
سبز قبائیں روز لٹاتا تھا لیکن
خود اس کے تن پر بوسیدہ کپڑا تھا
باہر سارے میداں جیت چکا تھا وہ
گھر لوٹا تو پل بھر میں ہی ٹوٹا تھا
بت کی قیمت آنک رہا تھا ویسے وہ
مندر میں تو پوجا کرنے آیا تھا
چیخ پڑیں ساری دیواریں عنبرؔ جی
میں سب سے چھپ کر کمرے میں بیٹھا تھا
غزل
دروازہ وا کر کے روز نکلتا تھا
عنبر بہرائچی