EN हिंदी
علی احمد جلیلی شیاری | شیح شیری

علی احمد جلیلی شیر

15 شیر

آندھیوں کا کام چلنا ہے غرض اس سے نہیں
پیڑ پر پتا رہے گا یا جدا ہو جائے گا

علی احمد جلیلی




بن رہے ہیں سطح دل پر دائرے
تم نے تو پتھر کوئی پھینکا نہیں

علی احمد جلیلی




دور تک دل میں دکھائی نہیں دیتا کوئی
ایسے ویرانے میں اب کس کو صدا دی جائے

علی احمد جلیلی




ایک تحریر جو اس کے ہاتھوں کی تھی
بات وہ مجھ سے کرتی رہی رات بھر

علی احمد جلیلی




غم سے منسوب کروں درد کا رشتہ دے دوں
زندگی آ تجھے جینے کا سلیقہ دے دوں

علی احمد جلیلی




ہم نے دیکھا ہے زمانے کا بدلنا لیکن
ان کے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے

علی احمد جلیلی




کاٹی ہے غم کی رات بڑے احترام سے
اکثر بجھا دیا ہے چراغوں کو شام سے

علی احمد جلیلی




کناروں سے مجھے اے ناخداؤ دور ہی رکھو
وہاں لے کر چلو طوفاں جہاں سے اٹھنے والا ہے

علی احمد جلیلی




کیا اسی واسطے سینچا تھا لہو سے اپنے
جب سنور جائے چمن آگ لگا دی جائے

علی احمد جلیلی