غم سے منسوب کروں درد کا رشتہ دے دوں
زندگی آ تجھے جینے کا سلیقہ دے دوں
بے چراغی یہ تری شام غریباں کب تک
چل تجھے جلتے مکانوں کا اجالا دے دوں
زندگی اب تو یہی شکل ہے سمجھوتے کی
دور ہٹ جاؤں تری راہ سے رستا دے دوں
تشنگی تجھ کو بجھانا مجھے منظور نہیں
ورنہ قطرہ کی ہے کیا بات میں دریا دے دوں
لی ہے انگڑائی تو پھر ہاتھ اٹھا کر رکھیے
ٹھہریے میں اسے لفظوں کا لبادہ دے دوں
اے مرے فن تجھے تکمیل کو پہنچانا ہے
آ تجھے خون کا میں آخری قطرہ دے دوں
سورج آ جائے کسی دن جو میرے ہاتھ علیؔ
گھونٹ دوں رات کا دم سب کو اجالا دے دوں
غزل
غم سے منسوب کروں درد کا رشتہ دے دوں
علی احمد جلیلی