ایک کھڑکی گلی کی کھلی رات بھر
منتظر جانے کس کی رہی رات بھر
ہم جلاتے رہے اپنے دل کے دیے
تیرگی قتل ہوتی رہی رات بھر
میری آنکھوں کو کر کے عطا رت جگے
میری تنہائی سوتی رہی رات بھر
ایک خوشبو درازوں سے چھنتی ہوئی
دستکیں جیسے دیتی رہی رات بھر
دل کے اندر کوئی جیسے چلتا رہا
چاپ قدموں کی آتی رہی رات بھر
ایک تحریر جو اس کے ہاتھوں کی تھی
بات وہ مجھ سے کرتی رہی رات بھر
ایک صورت علیؔ تھی جو جان غزل
میرے شعروں میں ڈھلتی رہی رات بھر
غزل
ایک کھڑکی گلی کی کھلی رات بھر
علی احمد جلیلی