کاٹی ہے غم کی رات بڑے احترام سے
اکثر بجھا دیا ہے چراغوں کو شام سے
روشن ہے اپنی بزم اور اس اہتمام سے
کچھ دل بھی جل رہا ہے چراغوں کے نام سے
مدت ہوئی ہے خون تمنا کئے مگر
اب تک ٹپک رہا ہے لہو دل کے جام سے
صبح بہار ہم کو بلاتی رہی مگر
ہم کھیلتے رہے کسی زلفوں کی شام سے
ہر سانس پر ہے موت کا پہرا لگا ہوا
آہستہ اے حیات گزر اس مقام سے
کاٹی تمام عمر فریب بہار میں
کانٹے سمیٹتے رہے پھولوں کے نام سے
یہ اور بات ہے کہ علیؔ ہم نہ سن سکے
آواز اس نے دی ہے ہمیں ہر مقام سے
غزل
کاٹی ہے غم کی رات بڑے احترام سے
علی احمد جلیلی