تم جو آؤ گے تو موسم دوسرا ہو جائے گا
لو کا جھونکا بھی چلے گا تو صبا ہو جائے گا
زندگی میں قتل کر کے تجھ کو نکلا تھا مگر
کیا خبر تھی پھر ترا ہی سامنا ہو جائے گا
نفرتوں نے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے ہمیں
جب یہ دیواریں گریں گی راستہ ہو جائے گا
آندھیوں کا کام چلنا ہے غرض اس سے نہیں
پیڑ پر پتا رہے گا یا جدا ہو جائے گا
کیا خبر تھی اے امیر شہر تیرے دور میں
سانس لینا جرم جینا حادثہ ہو جائے گا
آپ پیدا تو کریں دست ہنر پھر دیکھیے
آپ کے ہاتھوں میں پتھر آئینہ ہو جائے گا
میرے ہونٹوں پہ ہنسی آ کر رہے گی اے علیؔ
ایک دن یہ واقعہ بھی دیکھنا ہو جائے گا
غزل
تم جو آؤ گے تو موسم دوسرا ہو جائے گا
علی احمد جلیلی