اسی موڑ پر ہم ہوئے تھے جدا
ملے ہیں تو دم بھر ٹھہر جائیے
اختر سعید خان
ہر موج گلے لگ کے یہ کہتی ہے ٹھہر جاؤ
دریا کا اشارہ ہے کہ ہم پار اتر جائیں
اختر سعید خان
ہم نے مانا اک نہ اک دن لوٹ کے تو آ جائے گا
لیکن تجھ بن عمر جو گزری کون اسے لوٹائے گا
اختر سعید خان
دشمن جاں ہی سہی ساتھ تو اک عمر کا ہے
دل سے اب درد کی رخصت نہیں دیکھی جاتی
اختر سعید خان
چراغ لے کے اسے ڈھونڈنے چلا ہوں میں
جو آفتاب کی مانند اک اجالا ہے
اختر سعید خان
بند رکھوگے دریچے دل کے یارو کب تلک
کوئی دستک دے رہا ہے اٹھ کے دیکھو تو سہی
اختر سعید خان
بند کر دے کوئی ماضی کا دریچہ مجھ پر
اب اس آئینے میں صورت نہیں دیکھی جاتی
اختر سعید خان
بہت قریب رہی ہے یہ زندگی ہم سے
بہت عزیز سہی اعتبار کچھ بھی نہیں
اختر سعید خان
بہیں نہ آنکھ سے آنسو تو نغمگی بے سود
کھلیں نہ پھول تو رنگینئ فغاں کیا ہے
اختر سعید خان