EN हिंदी
اختر سعید خان شیاری | شیح شیری

اختر سعید خان شیر

27 شیر

کون جینے کے لیے مرتا رہے
لو، سنبھالو اپنی دنیا ہم چلے

اختر سعید خان




آ کہ میں دیکھ لوں کھویا ہوا چہرہ اپنا
مجھ سے چھپ کر مری تصویر بنانے والے

اختر سعید خان




ہر موج گلے لگ کے یہ کہتی ہے ٹھہر جاؤ
دریا کا اشارہ ہے کہ ہم پار اتر جائیں

اختر سعید خان




ہم نے مانا اک نہ اک دن لوٹ کے تو آ جائے گا
لیکن تجھ بن عمر جو گزری کون اسے لوٹائے گا

اختر سعید خان




دشمن جاں ہی سہی ساتھ تو اک عمر کا ہے
دل سے اب درد کی رخصت نہیں دیکھی جاتی

اختر سعید خان




چراغ لے کے اسے ڈھونڈنے چلا ہوں میں
جو آفتاب کی مانند اک اجالا ہے

اختر سعید خان




بند رکھوگے دریچے دل کے یارو کب تلک
کوئی دستک دے رہا ہے اٹھ کے دیکھو تو سہی

اختر سعید خان




بند کر دے کوئی ماضی کا دریچہ مجھ پر
اب اس آئینے میں صورت نہیں دیکھی جاتی

اختر سعید خان




بہت قریب رہی ہے یہ زندگی ہم سے
بہت عزیز سہی اعتبار کچھ بھی نہیں

اختر سعید خان