ہم جو لٹے اس شہر میں جا کر دکھ لوگوں کو کیوں پہنچا
اپنی نظر تھی اپنا دل تھا کوئی پرایا مال نہ تھا
اختر انصاری اکبرآبادی
ابھی بہار نے سیکھی کہاں ہے دل جوئی
ہزار داغ ابھی قلب لالہ زار میں ہیں
اختر انصاری اکبرآبادی
گل کھلائے نہ کہیں فتنۂ دوراں کچھ اور
آج کل دور مے و جام سے جی ڈرتا ہے
اختر انصاری اکبرآبادی
غم دل کا اثر ہر بزم میں ہے
سب افسانے اس افسانے سے نکلے
اختر انصاری اکبرآبادی
فتنوں کی ارزانی سے اب ایک اک تار آلودہ ہے
ہم دیکھیں کس کس کے دامن ایک بھی دامن پاک نہیں
اختر انصاری اکبرآبادی
دشمنی کو برا نہ کہہ اے دوست
دیکھ کیا دوستی ہے غور سے دیکھ
اختر انصاری اکبرآبادی
چپ رہو تو پوچھتا ہے خیر ہے
لو خموشی بھی شکایت ہو گئی
اختر انصاری اکبرآبادی
بندگی تیری خدائی سے بہت ہے آگے
نقش سجدہ ہے ترے نقش قدم سے پہلے
اختر انصاری اکبرآبادی
بچا بچا کے گزرنا ہے دامن ہستی
شریک خار بھی کچھ جشن نو بہار میں ہیں
اختر انصاری اکبرآبادی