EN हिंदी
فسردہ ہو کے میخانے سے نکلے | شیح شیری
fasurda ho ke maiKHane se nikle

غزل

فسردہ ہو کے میخانے سے نکلے

اختر انصاری اکبرآبادی

;

فسردہ ہو کے میخانے سے نکلے
یہاں بھی اپنے بیگانے سے نکلے

شفق کا رنگ گہرا کر گئے اور
جو شعلے میرے کاشانے سے نکلے

ذرا اے گردش دوراں ٹھہرنا
وہ نکلے رند میخانے سے نکلے

غم دل کا اثر ہر بزم میں ہے
سب افسانے اس افسانے سے نکلے

کیا آباد ویرانے کو ہم نے
ہمیں آباد ویرانے سے نکلے

جو پہنچے دار تک منصور تھے وہ
ہزاروں رند میخانے سے نکلے

نکلتے ہم نہ غم خانے سے اخترؔ
حسیں موسم کے بہکانے سے نکلے