فسردہ ہو کے میخانے سے نکلے
یہاں بھی اپنے بیگانے سے نکلے
شفق کا رنگ گہرا کر گئے اور
جو شعلے میرے کاشانے سے نکلے
ذرا اے گردش دوراں ٹھہرنا
وہ نکلے رند میخانے سے نکلے
غم دل کا اثر ہر بزم میں ہے
سب افسانے اس افسانے سے نکلے
کیا آباد ویرانے کو ہم نے
ہمیں آباد ویرانے سے نکلے
جو پہنچے دار تک منصور تھے وہ
ہزاروں رند میخانے سے نکلے
نکلتے ہم نہ غم خانے سے اخترؔ
حسیں موسم کے بہکانے سے نکلے
غزل
فسردہ ہو کے میخانے سے نکلے
اختر انصاری اکبرآبادی