رہنے دے یہ طنز کے نشتر اہل جنوں بے باک نہیں
کون ہے اپنے ہوش میں ظالم کس کا گریباں چاک نہیں
جب تھا زمانہ دیوانوں کا اب فرزانے آئے ہیں
جب صحرا میں لالہ و گل تھے اب گلشن میں خاک نہیں
فتنوں کی ارزانی سے اب ایک اک تار آلودہ ہے
ہم دیکھیں کس کس کے دامن ایک بھی دامن پاک نہیں
موج تلاطم خیر ہیں ہم ساحل کے قریب آتے ہی نہیں
وقت کی رو میں بہہ جائیں ہم ایسے خس و خاشاک نہیں
درد و کرب سے حشر بپا ہونٹوں پہ تبسم ہے اخترؔ
دل کا عالم کچھ بھی رہے آنکھیں تو مگر نمناک نہیں
غزل
رہنے دے یہ طنز کے نشتر اہل جنوں بے باک نہیں
اختر انصاری اکبرآبادی