EN हिंदी
دور تک روشنی ہے غور سے دیکھ | شیح شیری
dur tak raushni hai ghaur se dekh

غزل

دور تک روشنی ہے غور سے دیکھ

اختر انصاری اکبرآبادی

;

دور تک روشنی ہے غور سے دیکھ
موت بھی زندگی ہے غور سے دیکھ

ان چراغوں کے بعد اے دنیا
کس قدر تیرگی ہے غور سے دیکھ

رہنماؤں کا جذبۂ ایثار
یہ بھی اک رہزنی ہے غور سے دیکھ

دشمنی کو برا نہ کہہ اے دوست
دیکھ کیا دوستی ہے غور سے دیکھ

ترک تدبیر و جستجو کے بعد
زندگی زندگی ہے غور سے دیکھ

گر یہ شبنم کا رنگ لایا ہے
ہر طرف تازگی ہے غور سے دیکھ

ہیں تحیر میں وہ بھی اے اخترؔ
کیا تری شاعری ہے غور سے دیکھ