تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے
بلا کے پیچ میں آیا ہوا ہے
نہ کیوں کر بوئے خوں نامے سے آئے
اسی جلاد کا لکھا ہوا ہے
چلے دنیا سے جس کی یاد میں ہم
غضب ہے وہ ہمیں بھولا ہوا ہے
کہوں کیا حال اگلی عشرتوں کا
وہ تھا اک خواب جو بھولا ہوا ہے
جفا ہو یا وفا ہم سب میں خوش ہیں
کریں کیا اب تو دل اٹکا ہوا ہے
ہوئی ہے عشق ہی سے حسن کی قدر
ہمیں سے آپ کا شہرا ہوا ہے
بتوں پر رہتی ہے مائل ہمیشہ
طبیعت کو خدایا کیا ہوا ہے
پریشاں رہتے ہو دن رات اکبرؔ
یہ کس کی زلف کا سودا ہوا ہے
غزل
تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے
اکبر الہ آبادی