EN हिंदी
کیا جانیے سید تھے حق آگاہ کہاں تک | شیح شیری
kya jaaniye sayyad the haq aagah kahan tak

غزل

کیا جانیے سید تھے حق آگاہ کہاں تک

اکبر الہ آبادی

;

کیا جانیے سید تھے حق آگاہ کہاں تک
سمجھے نہ کہ سیدھی ہے مری راہ کہاں تک

منطق بھی تو اک چیز ہے اے قبلہ و کعبہ
دے سکتی ہے کام آپ کی واللہ کہاں تک

افلاک تو اس عہد میں ثابت ہوئے معدوم
اب کیا کہوں جاتی ہے مری آہ کہاں تک

کچھ صنعت و حرفت پہ بھی لازم ہے توجہ
آخر یہ گورنمنٹ سے تنخواہ کہاں تک

مرنا بھی ضروری ہے خدا بھی ہے کوئی چیز
اے حرص کے بندو ہوس جاہ کہاں تک

تحسین کے لائق ترا ہر شعر ہے اکبرؔ
احباب کریں بزم میں اب واہ کہاں تک