EN हिंदी
وحشت دل صلۂ آبلہ پائی لے لے | شیح شیری
wahshat-e-dil sila-e-abla-pai le le

غزل

وحشت دل صلۂ آبلہ پائی لے لے

احمد فراز

;

وحشت دل صلۂ آبلہ پائی لے لے
مجھ سے یارب مرے لفظوں کی کمائی لے لے

عقل ہر بار دکھاتی تھی جلے ہاتھ اپنے
دل نے ہر بار کہا آگ پرائی لے لے

میں تو اس صبح درخشاں کو تونگر جانوں
جو مرے شہر سے کشکول گدائی لے لے

تو غنی ہے مگر اتنی ہیں شرائط تیری
وہ محبت جو ہمیں راس نہ آئی لے لے

ایسا نادان خریدار بھی کوئی ہوگا
جو ترے غم کے عوض ساری خدائی لے لے

اپنے دیوان کو گلیوں میں لیے پھرتا ہوں
ہے کوئی جو ہنر زخم نمائی لے لے

میری خاطر نہ سہی اپنی انا کی خاطر
اپنے بندوں سے تو پندار خدائی لے لے

اور کیا نذر کروں اے غم دل دار فرازؔ
زندگی جو غم دنیا سے بچائی لے لے