EN हिंदी
توقیر تقی شیاری | شیح شیری

توقیر تقی شیر

16 شیر

اب زمانے میں محبت ہے تماشے کی طرح
اس تماشے سے بہلتا نہیں تو بھی میں بھی

توقیر تقی




بدن میں دل تھا معلق خلا میں نظریں تھیں
مگر کہیں کہیں سینے میں درد زندہ تھا

توقیر تقی




بدن میں روح کی ترسیل کرنے والے لوگ
بدل گئے مجھے تبدیل کرنے والے لوگ

توقیر تقی




دامن بچا رہے تھے کہ چہرہ بھی جل گیا
کس آگ سے گزر کے تری روشنی میں آئے

توقیر تقی




ہماری راہ میں بیٹھے گی کب تک تیری دنیا
کبھی تو اس زلیخا کی جوانی ختم ہوگی

توقیر تقی




ہجر تھا بار امانت کی طرح
سو یہ غم آخری ہچکی سے اٹھا

توقیر تقی




ان سلگتی ہوئی سانسوں کو نہیں دیکھتے لوگ
اور سمجھتے ہیں کہ جلتا نہیں تو بھی میں بھی

توقیر تقی




جیسے ویران حویلی میں ہوں خاموش چراغ
اب گزرتی ہیں ترے شہر میں شامیں ایسی

توقیر تقی




کل جہاں دیوار ہی دیوار تھی
اب وہاں در ہے جبیں ہے عشق ہے

توقیر تقی