پری اڑ جائے گی اور راجدھانی ختم ہوگی
یہ آنکھیں بند ہوتے ہی کہانی ختم ہوگی
کسی صندوق میں دیمک زدہ خط دیکھتے ہی
کہا دل نے اب اس کی ہر نشانی ختم ہوگی
اسے یہ شوق گہری دھند لپٹے ہر شجر سے
مجھے یہ فکر کیسے بد گمانی ختم ہوگی
خبر کب تھی طلسم ایسا ہے اس بھیگی نظر میں
یکایک جسم سے خوں کی روانی ختم ہوگی
زمیں پر آسماں ہوتے پرندے جان لیں گے
ستاروں پر بھی آخر حکمرانی ختم ہوگی
ہماری راہ میں بیٹھے گی کب تک تیری دنیا
کبھی تو اس زلیخا کی جوانی ختم ہوگی
خدا جانے کہاں ٹوٹے مسافت کا تسلسل
پر اتنا جانتے ہیں بے مکانی ختم ہوگی

غزل
پری اڑ جائے گی اور راجدھانی ختم ہوگی
توقیر تقی