خاک ہوتی ہوئی ہستی سے اٹھا
عشق کا بوجھ بھی مٹی سے اٹھا
ہجر تھا بار امانت کی طرح
سو یہ غم آخری ہچکی سے اٹھا
لو ترے بعد بڑھی اشکوں کی
شعلۂ عشق بھی پانی سے اٹھا
دل نے آباد کیا عشق آباد
خاک ہو کر اسی بستی سے اٹھا
دل اسی درد کی زلفوں کا اسیر
ہائے وہ درد جو پسلی سے اٹھا
یا مجھے قید عناصر سے نکال
یا مری خاک کو پستی سے اٹھا
آخری وقت میں ہر رنج کا بوجھ
خم شدہ ریڑھ کی ہڈی سے اٹھا
اس سے پہلے کہ مرا نام آ جائے
مجھے اس ڈولتی کشتی سے اٹھا

غزل
خاک ہوتی ہوئی ہستی سے اٹھا
توقیر تقی