موج خیال میں نہ کسی جل پری میں آئے
دریا کے سارے رنگ مری تشنگی میں آئے
پھر ایک روز آن ملا ابر ہم مزاج
مٹی نمو پذیر ہوئی تازگی میں آئے
دامن بچا رہے تھے کہ چہرہ بھی جل گیا
کس آگ سے گزر کے تری روشنی میں آئے
یہ میں ہوں میرے خواب یہ شمشیر بے نیام
اب تیرا اختیار ہے جو تیرے جی میں آئے
اک بار اس جہان سے مل لینا چاہئے
ایسا نہ ہو کہ پھر یہ فقط خواب ہی میں آئے
آنکھوں میں وہ لپک ہے نہ سینے میں وہ الاؤ
اس بار اس سے کہنا ذرا سادگی میں آئے
تنہا اداس دیکھ رہا تھا میں چاند کو
یہ پھول بہتے بہتے کہاں سے ندی میں آئے
تھک ہار کر گرا تھا کہ آنکھوں میں پھر گئے
توقیرؔ وہ مقام جو آوارگی میں آئے

غزل
موج خیال میں نہ کسی جل پری میں آئے
توقیر تقی