EN हिंदी
توقیر تقی شیاری | شیح شیری

توقیر تقی شیر

16 شیر

لفظ کی قید سے رہا ہو جا
آ مری آنکھ سے ادا ہو جا

توقیر تقی




میں ترے ہجر سے نکلوں گا تو مر جاؤں گا
ہائے وہ لوگ جو محور سے نکل جاتے ہیں

توقیر تقی




پھینک دے خشک پھول یادوں کے
ضد نہ کر تو بھی بے وفا ہو جا

توقیر تقی




روٹھ کر آنکھ کے اندر سے نکل جاتے ہیں
اشک بچوں کی طرح گھر سے نکل جاتے ہیں

توقیر تقی




سبز پیڑوں کو پتہ تک نہیں چلتا شاید
زرد پتے بھرے منظر سے نکل جاتے ہیں

توقیر تقی




یہیں آنا ہے بھٹکتی ہوئی آوازوں کو
یعنی کچھ بات تو ہے کوہ ندا میں ایسی

توقیر تقی




زر کا بندہ ہو کہ محرومی کا مارا ہوا شخص
جس کو دیکھو وہی اوقات سے نکلا ہوا ہے

توقیر تقی