EN हिंदी
صورت عشق بدلتا نہیں تو بھی میں بھی | شیح شیری
surat-e-ishq badalta nahin tu bhi main bhi

غزل

صورت عشق بدلتا نہیں تو بھی میں بھی

توقیر تقی

;

صورت عشق بدلتا نہیں تو بھی میں بھی
غم کی حدت سے پگھلتا نہیں تو بھی میں بھی

اب زمانے میں محبت ہے تماشے کی طرح
اس تماشے سے بہلتا نہیں تو بھی میں بھی

ان سلگتی ہوئی سانسوں کو نہیں دیکھتے لوگ
اور سمجھتے ہیں کہ جلتا نہیں تو بھی میں بھی

اپنا نقصان برابر کا ہوا آندھی میں
اب کسی شاخ پہ پھلتا نہیں تو بھی میں بھی

اے سمندر تری پھیلی ہوئی بانہوں کی قسم
اپنی موجوں سے نکلتا نہیں تو بھی میں بھی

ڈگمگاتے ہیں قدم ڈولتی ہے وقت کی سانس
تار ہستی پہ سنبھلتا نہیں تو بھی میں بھی

اب وہ غالب ہے نہ وہ اہل کرم ہیں توقیرؔ
عشق میں بھیس بدلتا نہیں تو بھی میں بھی