بہار اب کے جو گزری تو پھر نہ آئے گی
بچھڑنے والے بچھڑتے سمے یہ کہہ گئے ہیں
تحسین فراقی
میں جن گلیوں میں پیہم بر سر گردش رہا ہوں
میں ان گلیوں میں اتنا خار پہلے کب ہوا تھا
تحسین فراقی
میں کہاں اور کہاں شاعری میں نے تو فقط
مجلس شعر بپا کی تو تمہارے لیے کی
تحسین فراقی
مجھ سا انجان کسی موڑ پہ کھو سکتا ہے
حادثہ کوئی بھی اس شہر میں ہو سکتا ہے
تحسین فراقی
پھر اس کی یاد نے دستک دل حزیں پر دی
پھر آنسوؤں میں نہاں اس کے خد و خال ہوئے
تحسین فراقی
سطح دریا کا یہ سفاک سکوں ہے دھوکا
یہ تری ناؤ کسی وقت ڈبو سکتا ہے
تحسین فراقی
یہ طے ہوا ہے کہ شعر و ادب کے پیمانے
ہمارے شہر کا اک یک فنا ہی طے کرے گا
تحسین فراقی