مجھ سا انجان کسی موڑ پہ کھو سکتا ہے
حادثہ کوئی بھی اس شہر میں ہو سکتا ہے
سطح دریا کا یہ سفاک سکوں ہے دھوکا
یہ تری ناؤ کسی وقت ڈبو سکتا ہے
خود کنواں چل کے کرے تشنہ دہانوں کو غریق
ایسا ممکن ہے مری جان یہ ہو سکتا ہے
بے طرح گونجتا ہے روح کے سناٹے میں
ایسے صحرا میں مسافر کہاں سو سکتا ہے
قتل سے ہاتھ اٹھاتا نہیں قاتل نہ سہی
خون سے لتھڑے ہوئے ہاتھ تو دھو سکتا ہے
جھوم کر اٹھتا نہیں کھل کے برسنا کیسا
کیسا بادل ہے کہ ہنستا ہے نہ رو سکتا ہے
جز مرے رشتۂ انفاس گرہ گیر میں کون
گہر اشک شرر بار پرو سکتا ہے
غزل
مجھ سا انجان کسی موڑ پہ کھو سکتا ہے
تحسین فراقی