مہ و انجم نے قبا کی تو تمہارے لیے کی
چاند چہروں پہ ردا کی تو تمہارے لیے کی
وہ بھی تھا موج میں یہ دل بھی بہکنے ہی کو تھا
اپنے ہاتھوں نے حیا کی تو تمہارے لیے کی
کوہ و صحرا میں بھٹکتے سر ساحل پھرتے
میں نے ہر گام صدا کی تو تمہارے لیے کی
دل کے اس تپتے ہوئے تند بیاباں کے بیچ
میں نے اک نہر بنا کی تو تمہارے لیے کی
مجھ سے تھا بر سر کیں ربط نہاں تم سے تھا
دل نے گر تم سے وفا کی تو تمہارے لیے کی
رات مواج تھی جب ہاتھ اٹھے اس کے حضور
سب سے پہلے جو دعا کی تو تمہارے لیے کی
میں کہاں اور کہاں شاعری میں نے تو فقط
مجلس شعر بپا کی تو تمہارے لیے کی
غزل
مہ و انجم نے قبا کی تو تمہارے لیے کی
تحسین فراقی