چمن اتنا خزاں آثار پہلے کب ہوا تھا
بلا کا قحط برگ و بار پہلے کب ہوا تھا
حوادث اور میں بچپن سے گو لڑ بھڑ رہے تھے
حوادث کا یہ گہرا وار پہلے کب ہوا تھا
میں جن گلیوں میں پیہم بر سر گردش رہا ہوں
میں ان گلیوں میں اتنا خار پہلے کب ہوا تھا
میں بیمار محبت یوں تو پہلے بھی رہا ہوں
مگر اس زور کا بیمار پہلے کب ہوا تھا
صدا ''نا نا'' کی یوں تو گوش زد ہوتی رہی ہے
لب لعلیں سے صاف انکار پہلے کب ہوا تھا
ترا لہجہ تھا جاناں شیر و شبنم سے عبارت
ترا لہجہ ابھی تلوار پہلے کب ہوا تھا
صلیب و دار پہلے بھی بہت وافر نہیں تھے
مگر قحط صلیب و دار پہلے کب ہوا تھا
میاں تحسیںؔ تری رندی کی سن گن تھی ہمیں بھی
مگر ایسا کھلا اقرار پہلے کب ہوا تھا
غزل
چمن اتنا خزاں آثار پہلے کب ہوا تھا
تحسین فراقی