اسے میں اور یہ میرا عصا ہی طے کرے گا
یہ راہ عشق مرا حوصلہ ہی طے کرے گا
شب سیاہ کے دامن میں ہیں گہر کیا کیا
نصیب والے! ترا رتجگا ہی طے کرے گا
سمندروں سے مہ چار دہ کا کھیل ہے کیا
کوئی کھلاڑی کوئی مہ لقا ہی طے کرے گا
ہمارا دل ہے کسی کام کا کہ ناکارہ
یہ امر آج کہ کل دل ربا ہی طے کرے گا
ہیں شیشہ کش ہمیں کیا کام کار دنیا سے
یہ راہ سخت کوئی دوسرا ہی طے کرے گا
علاج ان کا، جو ہیں اس زمیں کا بوجھ، میاں!
کوئی خروش کوئی زلزلہ ہی طے کرے گا
جو حال مست ہیں گم کردہ راہ بھی انہیں کیا
کہ روڈ میپ کوئی دوسرا ہی طے کرے گا
بجائے خواجگاں مسند نشیں ہوں خواجہ سرا
تو مسئلہ کوئی خواجہ سرا ہی طے کرے گا
علاج کیا ہو شغالوں کا بد سگالوں کا
یہ شیر نر کا کوئی ہمہمہ ہی طے کرے گا
تمام شہر کی جب بے حسی ہو سکۂ وقت
تو مول تول کوئی مسخرہ ہی طے کرے گا
یہ طے ہوا ہے کہ شعر و ادب کے پیمانے
ہمارے شہر کا اک یک فنا ہی طے کرے گا
مجھے ہلاک کیا کس نے اور کیوں کس وقت
یہ سب معاملہ روز جزا ہی طے کرے گا
غزل
اسے میں اور یہ میرا عصا ہی طے کرے گا
تحسین فراقی