بہت سے سیل حوادث کی زد پہ بہہ گئے ہیں
یہ چند ایک درختان سبز رہ گئے ہیں
مکین دشت کے فی الفور دشت چھوڑ گئے
کہ شیر زاد خموشی سے وار سہہ گئے ہیں
زمین بانجھ ہے نازاد ہو گئے کھلیان
اگرچہ صبح و مسا بار بار گہہ گئے ہیں
پرندگاں! تمہیں کچھ بھی خبر نہ ہو پائی
درخت ڈھے گئے انبار آب بہہ گئے ہیں
بہار اب کے جو گزری تو پھر نہ آئے گی
بچھڑنے والے بچھڑتے سمے یہ کہہ گئے ہیں

غزل
بہت سے سیل حوادث کی زد پہ بہہ گئے ہیں
تحسین فراقی