عجب یقین سا اس شخص کے گمان میں تھا
وہ بات کرتے ہوئے بھی نئی اڑان میں تھا
تابش کمال
ہم اس دھرتی کے باشندے تھے تابشؔ
کہ جس کا کوئی مستقبل نہیں تھا
تابش کمال
جس نے انساں سے محبت ہی نہیں کی تابشؔ
اس کو کیا علم کہ پندار سے آگے کیا ہے
تابش کمال
کئی پڑاؤ تھے منزل کی راہ میں تابشؔ
مرے نصیب میں لیکن سفر کچھ اور سے تھے
تابش کمال
کب کھلے گا کہ فلک پار سے آگے کیا ہے
کس کو معلوم کہ دیوار سے آگے کیا ہے
تابش کمال
کوئی اظہار کر سکتا ہے کیسے
یہ لفظوں سے زباں کا فاصلہ ہے
تابش کمال
نہ دیکھیں تو سکوں ملتا نہیں ہے
ہمیں آخر وہ کیوں ملتا نہیں ہے
تابش کمال
اتر گیا ہے رگ و پے میں ذائقہ اس کا
عجیب شہد سا کل رات اس زبان میں تھا
تابش کمال
یقیں سے جو گماں کا فاصلہ ہے
زمیں سے آسماں کا فاصلہ ہے
تابش کمال