ہمارا ڈوبنا مشکل نہیں تھا
نظر میں دور تک ساحل نہیں تھا
کہاں تھا گفتگو کرتے ہوئے وہ
وہ تھا بھی تو سر محفل نہیں تھا
میں اس کو سب سے بہتر جانتا ہوں
جسے میرا پتہ حاصل نہیں تھا
زمانے سے الگ تھی میری دنیا
میں اس کی دوڑ میں شامل نہیں تھا
وہ پتھر بھی تھا کتنا خوبصورت
جو آئینہ تھا لیکن دل نہیں تھا
ہم اس دھرتی کے باشندے تھے تابشؔ
کہ جس کا کوئی مستقبل نہیں تھا
غزل
ہمارا ڈوبنا مشکل نہیں تھا
تابش کمال