عجب یقین سا اس شخص کے گمان میں تھا
وہ بات کرتے ہوئے بھی نئی اڑان میں تھا
ہوا بھری ہوئی پھرتی تھی اب کے ساحل پر
کچھ ایسا حوصلہ کشتی کے بادبان میں تھا
ہمارے بھیگے ہوئے پر نہیں کھلے ورنہ
ہمیں بلاتا ستارہ تو آسمان میں تھا
اتر گیا ہے رگ و پے میں ذائقہ اس کا
عجیب شہد سا کل رات اس زبان میں تھا
کھلی جو آنکھ تو تابشؔ کمال یہ دیکھا
وہ میری روح میں تھا اور میں مکان میں تھا
غزل
عجب یقین سا اس شخص کے گمان میں تھا
تابش کمال