EN हिंदी
نہ دیکھیں تو سکوں ملتا نہیں ہے | شیح شیری
na dekhen to sukun milta nahin hai

غزل

نہ دیکھیں تو سکوں ملتا نہیں ہے

تابش کمال

;

نہ دیکھیں تو سکوں ملتا نہیں ہے
ہمیں آخر وہ کیوں ملتا نہیں ہے

محبت کے لیے جذبہ ہے لازم
یہ آئینہ تو یوں ملتا نہیں ہے

ہم اک مدت سے در پر منتظر ہیں
مگر اذن جنوں ملتا نہیں ہے

ہے جتنا ظرف اتنی پاسداری
ضرورت ہے فزوں ملتا نہیں ہے

عجب ہوتی ہے آئندہ ملاقات
ہمیشہ جوں کا توں ملتا نہیں ہے

اگر ملتے بھی ہوں اپنے خیالات
تو اک دوجے سے خوں ملتا نہیں ہے

وہ میرے شہر میں رہتا ہے تابشؔ
مگر میں کیا کروں ملتا نہیں ہے