EN हिंदी
عجیب صبح تھی دیوار و در کچھ اور سے تھے | شیح شیری
ajib subh thi diwar o dar kuchh aur se the

غزل

عجیب صبح تھی دیوار و در کچھ اور سے تھے

تابش کمال

;

عجیب صبح تھی دیوار و در کچھ اور سے تھے
نگاہ دیکھ رہی تھی کہ گھر کچھ اور سے تھے

وہ آشیانے نہیں تھے جہاں پہ چڑیاں تھیں
شجر کچھ اور سے ان پر ثمر کچھ اور سے تھے

تمام کشتیاں منجدھار میں گھری ہوئی تھیں
ہر ایک لہر میں بنتے بھنور کچھ اور سے تھے

بہت بدل گیا میدان جنگ کا نقشہ
وہ دھڑ کچھ اور سے تھے ان پہ سر کچھ اور سے تھے

مرے حلیف مرے ساتھ تھے لڑائی میں
ہر ایک شخص کے تیور مگر کچھ اور سے تھے

کئی پڑاؤ تھے منزل کی راہ میں تابشؔ
مرے نصیب میں لیکن سفر کچھ اور سے تھے