کب کھلے گا کہ فلک پار سے آگے کیا ہے
کس کو معلوم کہ دیوار سے آگے کیا ہے
ایک طرہ سا تو میں دیکھ رہا ہوں لیکن
کوئی بتلائے کہ دستار سے آگے کیا ہے
ظلم یہ ہے کہ یہاں بکتا ہے یوسف بے دام
اور نہیں جانتا بازار سے آگے کیا ہے
سر میں سودا ہے کہ اک بار تو دیکھوں جا کر
سر میدان سجی دار سے آگے کیا ہے
جس نے انساں سے محبت ہی نہیں کی تابشؔ
اس کو کیا علم کہ پندار سے آگے کیا ہے

غزل
کب کھلے گا کہ فلک پار سے آگے کیا ہے
تابش کمال