آپ کے دم سے تو دنیا کا بھرم ہے قائم
آپ جب ہیں تو زمانے کی ضرورت کیا ہے
شاہد کبیر
بے سبب بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے
ہم خفا کب تھے منانے کی ضرورت کیا ہے
شاہد کبیر
غم کا خزانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
یہ نذرانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
شاہد کبیر
گرنے دو تم مجھے مرا ساغر سنبھال لو
اتنا تو میرے یار کرو میں نشے میں ہوں
شاہد کبیر
اس سوچ میں زندگی بتا دی
جاگا ہوا ہوں کہ سو رہا ہوں
شاہد کبیر
اتنی جلدی تو بدلتے نہیں ہوں گے چہرے
گرد آلود ہے آئینے کو دھویا جائے
شاہد کبیر
کانٹوں کو پلا کے خون اپنا
راہوں میں گلاب بو رہا ہوں
شاہد کبیر
کون ہے اپنا کون پرایا کیا سوچیں
چھوڑ زمانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
شاہد کبیر
کچھ تو ہو رات کی سرحد میں اترنے کی سزا
گرم سورج کو سمندر میں ڈبویا جائے
شاہد کبیر