غم کا خزانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
یہ نذرانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
اپنے غم کو گیت بنا کر گا لینا
راگ پرانا تیرا بھی ہے میرا بھی
کون ہے اپنا کون پرایا کیا سوچیں
چھوڑ زمانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
شہر میں گلیوں گلیوں جس کا چرچا ہے
وہ افسانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
تو مجھ کو اور میں تجھ کو سمجھاؤں کیا
دل دیوانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
مے خانہ کی بات نہ کر واعظ مجھ سے
آنا جانا تیرا بھی ہے میرا بھی
جیسا بھی ہے شاہدؔ کو اب کیا کہیے
یار پرانا تیرا بھی ہے میرا بھی
غزل
غم کا خزانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
شاہد کبیر