پایا نہیں وہ جو کھو رہا ہوں
تقدیر کو اپنی رو رہا ہوں
اس سوچ میں زندگی بتا دی
جاگا ہوا ہوں کہ سو رہا ہوں
پھر کس سے اٹھے گا بوجھ میرا
اس فکر میں خود کو ڈھو رہا ہوں
کانٹوں کو پلا کے خون اپنا
راہوں میں گلاب بو رہا ہوں
جھرنا ہو ندی ہو یا سمندر
کوزے میں سب سمو رہا ہوں
ہر رنگ گنوا چکا ہے پہچان
پانی میں قلم ڈبو رہا ہوں
پتھر کے لباس کو میں شاہدؔ
شیشے کی سلوں پہ دھو رہا ہوں
غزل
پایا نہیں وہ جو کھو رہا ہوں
شاہد کبیر