EN हिंदी
شاہد کبیر شیاری | شیح شیری

شاہد کبیر شیر

16 شیر

مے خانہ کی بات نہ کر واعظ مجھ سے
آنا جانا تیرا بھی ہے میرا بھی

شاہد کبیر




پایا نہیں وہ جو کھو رہا ہوں
تقدیر کو اپنی رو رہا ہوں

شاہد کبیر




شہر میں گلیوں گلیوں جس کا چرچا ہے
وہ افسانہ تیرا بھی ہے میرا بھی

شاہد کبیر




تباہ کر گئی پکے مکان کی خواہش
میں اپنے گاؤں کے کچے مکان سے بھی گیا

شاہد کبیر




تیرا کوچہ ترا در تیری گلی کافی ہے
بے ٹھکانوں کو ٹھکانے کی ضرورت کیا ہے

شاہد کبیر




وہ بھی دھرتی پہ اتاری ہوئی مخلوق ہی ہے
جس کا کاٹا ہوا انسان نہ پانی مانگے

شاہد کبیر




زندگی اک آنسوؤں کا جام تھا
پی گئے کچھ اور کچھ چھلکا گئے

life was a cup of teardrops unallayed
some were drunk and some were idly sprayed

شاہد کبیر