EN हिंदी
کرب چہرے سے مہ و سال کا دھویا جائے | شیح شیری
karb chehre se mah-o-sal ka dhoya jae

غزل

کرب چہرے سے مہ و سال کا دھویا جائے

شاہد کبیر

;

کرب چہرے سے مہ و سال کا دھویا جائے
آج فرصت سے کہیں بیٹھ کے رویا جائے

پھر کسی نظم کی تمہید اٹھائی جائے
پھر کسی جسم کو لفظوں میں سمویا جائے

کچھ تو ہو رات کی سرحد میں اترنے کی سزا
گرم سورج کو سمندر میں ڈبویا جائے

بج گئے رات کے دو اب تو وہ آنے سے رہے
آج اپنا ہی بدن اوڑھ کے سویا جائے

نرم دھاگے کو مسلتا ہے کوئی چٹکی میں
سخت ہو جائے تو موتی میں پرویا جائے

اتنی جلدی تو بدلتے نہیں ہوں گے چہرے
گرد آلود ہے آئینے کو دھویا جائے

موت سے خوف زدہ جینے سے بے زار ہیں لوگ
اس المیے پہ ہنسا جائے کہ رویا جائے