دیکھ کر شاعر نے اس کو نکتۂ حکمت کہا
اور بے سوچے زمانہ نے اسے عورت کہا
شاد عارفی
جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی
چوم لوں منہ آپ کی تلوار کا
شاد عارفی
جہان درد میں انسانیت کے ناطے سے
کوئی بیان کرے میری داستاں ہوگی
شاد عارفی
کہیں فطرت بدل سکتی ہے ناموں کے بدلنے سے
جناب شیخ کو میں برہمن کہہ دوں تو کیا ہوگا
شاد عارفی
کٹتی ہے آرزو کے سہارے پہ زندگی
کیسے کہوں کسی کی تمنا نہ چاہئے
شاد عارفی
نہیں ہے انسانیت کے بارے میں آج بھی ذہن صاف جن کا
وہ کہہ رہے ہیں کہ جس سے نیکی کرو گے اس سے بدی ملے گی
شاد عارفی
رنگ لائے گی ہماری تنگ دستی ایک دن
مثل غالبؔ شادؔ گر سب کچھ ادھار آتا گیا
شاد عارفی
رفتہ رفتہ میری الغرضی اثر کرتی رہی
میری بے پروائیوں پر اس کو پیار آتا گیا
شاد عارفی
شادؔ غیرممکن ہے شکوۂ بتاں مجھ سے
میں نے جس سے الفت کی اس کو باوفا پایا
شاد عارفی