ہماری غزلوں ہمارے شعروں سے تم کو یہ آگہی ملے گی
کہاں کہاں کارواں لٹے ہیں کہاں کہاں روشنی ملے گی
جہاں ملیں گے بتوں کے ہونٹوں پہ یوں تو گہری ہنسی ملے گی
مگر بہ باطن خلوص و شائستگی میں واضح کمی ملے گی
اسی سمے ہم نے ان کو ٹوکا تھا باغباں جب یہ کہہ رہے تھے
بہار آتے ہی جی اٹھے گا چمن نئی زندگی ملے گی
سنبھل سنبھل کر قدم بڑھاتے ہیں اس طرح مصلحت کے پیرو
کہ جیسے سکے کی طرح رستے میں کامیابی پڑی ملے گی
ہمیں ستا کر جو ہیں پشیمان دل میں شاید وہ بچ بھی جائیں
ہمیں ستا کر جو مطمئن ہیں انہیں سزا لازمی ملے گی
بھرے ہوئے ساغر و سبو میں شراب بھر پائے گا نہ ساقی
تو پھر غریقان عیش و عشرت کو خاک آسودگی ملے گی
نہیں ہے انسانیت کے بارے میں آج بھی ذہن صاف جن کا
وہ کہہ رہے ہیں کہ جس سے نیکی کرو گے اس سے بدی ملے گی
غم محبت کے بعد آتی ہے سرحد التفات جاناں
شراب کی تلخیاں سہو گے تو لذت بے خودی ملے گی
یہ بد گمانان انجمن شادؔ کس لیے جان کھو رہے ہیں
نقاب اٹھانے کے بعد بھی اس نگاہ میں برہمی ملے گی
غزل
ہماری غزلوں ہمارے شعروں سے تم کو یہ آگہی ملے گی
شاد عارفی