کبھی تلاش نہ ضائع نہ رائیگاں ہوگی
اگر ہوئی بھی تو از راہ امتحاں ہوگی
اگر ممانعت سیر گلستاں ہوگی
تو پھر بہار ہمیں روکش خزاں ہوگی
اصول یہ تو نہیں ہے کہ نامراد رہیں
فضا کبھی نہ کبھی ہم پہ مہرباں ہوگی
جہان درد میں انسانیت کے ناطے سے
کوئی بیان کرے میری داستاں ہوگی
مے نشاط و طرب جس کا ہم سے وعدہ تھا
جبھی ہوئی نہ فراہم تو اب کہاں ہوگی
بیان غم تو بہت سہل ہے پہ لذت غم
سوائے عجز بیاں کس طرح بیاں ہوگی
اگر غلط ہے جو کچھ اس نے مجھ سے آ کے کہا
تو یہ جسارت تحریف رازداں ہوگی
پتہ چلا کہ بصارت فریب ہیں جلوے
میں اس خیال میں تھا عقل پاسباں ہوگی
وہاں وہاں غم حالات روشنی دیں گے
مری غزل کی رسائی جہاں جہاں ہوگی
پیو پیو کہ صبوحی سے فاصلہ نہ رہے
نمود صبح کی تقریب میں اذاں ہوگی
نشیمنوں کی مخالف نہ تھی بہار چمن
مگر شرارت ایمائے باغباں ہوگی
تو کیا کثافت عریانی غزل اے شادؔ
ادب کی خاک اڑانے سے کچھ عیاں ہوگی
غزل
کبھی تلاش نہ ضائع نہ رائیگاں ہوگی
شاد عارفی