کھری باتیں بہ انداز سخن کہہ دوں تو کیا ہوگا
عدوئے جان و تن کو جان من کہہ دوں تو کیا ہوگا
نگہبان وطن کو راہزن کہہ دوں تو کیا ہوگا
کسی بھی بدچلن کو بدچلن کہہ دوں تو کیا ہوگا
غریبی جن کے لتے لے گئی تا حد عریانی
جو میں ان عصمتوں کو سیم تن کہہ دوں تو کیا ہوگا
اندھیرے کو اندھیرے ہی کہیں گے دیکھنے والے
سواد شام کو صبح وطن کہہ دوں تو کیا ہوگا
غلط باتوں پہ دنیا کب توجہ صرف کرتی ہے
بتوں کو بے زبان و بے دہن کہہ دوں تو کیا ہوگا
کہیں فطرت بدل سکتی ہے ناموں کے بدلنے سے
جناب شیخ کو میں برہمن کہہ دوں تو کیا ہوگا
قد و گیسو کو تم شمشاد و سنبل کہہ کے کیا لوگے
قد و گیسو کو میں دار و رسن کہہ دوں تو کیا ہوگا
ستارے توڑتی ہے جب کہ ذروں کی توانائی
ستاروں کو تمہاری انجمن کہہ دوں تو کیا ہوگا
صدارت کے فرائض جب ادا ہونے نہیں پاتے
اگر میں تم کو صدر انجمن کہہ دوں تو کیا ہوگا
وہ بت اے شادؔ جب غزلوں میں دلچسپی نہیں لیتا
میں اس کی شان میں کوئی بھجن کہہ دوں تو کیا ہوگا
غزل
کھری باتیں بہ انداز سخن کہہ دوں تو کیا ہوگا
شاد عارفی