جذبۂ محبت کو تیر بے خطا پایا
میں نے جب اسے دیکھا دیکھتا ہوا پایا
جانتے ہو کیا پایا پوچھتے ہو کیا پایا
صبح دم دریچے میں ایک خط پڑا پایا
دیر میں پہنچنے پر بحث تو ہوئی لیکن
اس کی بے قراری کو حسب مدعا پایا
صبح تک مرے ہمراہ آنکھ بھی نہ جھپکائی
میں نے ہر ستارے کو درد آشنا پایا
گریۂ جدائی کو سہل جاننے والو
دل سے آنکھ کی جانب خون دوڑتا پایا
اہتمام پردہ نے کھول دیں نئی راہیں
وہ جہاں چھپا جا کر میرا سامنا پایا
دل کو موہ لیتی ہے دل کشیٔ نظارہ
آنکھ کی خطاؤں میں دل کو مبتلا پایا
رنگ لائی نا آخر ترک ناز برداری
ہاتھ جوڑ کر اس کو محو التجا پایا
شادؔ غیرممکن ہے شکوۂ بتاں مجھ سے
میں نے جس سے الفت کی اس کو باوفا پایا
غزل
جذبۂ محبت کو تیر بے خطا پایا
شاد عارفی