اب تو سنوارنے کے لیے ہجر بھی نہیں
سارا وبال لے کے غزل کر دیا گیا
ثروت زہرا
بس ایک بار یاد نے تمہارا ساتھ چھو لیا
پھر اس کے بعد تو کئی جمال جاگتے رہے
ثروت زہرا
بنت حوا ہوں میں یہ مرا جرم ہے
اور پھر شاعری تو کڑا جرم ہے
ثروت زہرا
بنت حوا ہوں میں یہ مرا جرم ہے
اور پھر شاعری تو کڑا جرم ہے
ثروت زہرا
دل کے دریا نے کناروں سے محبت کر لی
تیز بہتا ہے مگر کم نہیں ہونے پاتا
ثروت زہرا
جانے والے کو چلے جانا ہے
پھر بھی رسماً ہی پکارا جائے
ثروت زہرا
جو سارا دن مرے خوابوں کو ریزہ ریزہ کرتے ہیں
میں ان لمحوں کو سی کر رات کا بستر بناتی ہوں
ثروت زہرا
کہاں پہ کھولو گے درد اپنا کسے کہوگے
کہیں چھپاؤ، یہ حال لے کر کہاں چلے ہو
ثروت زہرا
کیسے بجھائیں کون بجھائے بجھے بھی کیوں
اس آگ کو تو خون میں حل کر دیا گیا
ثروت زہرا