بے تحاشہ اسے سوچا جائے
زخم کو اور کریدا جائے
جانے والے کو چلے جانا ہے
پھر بھی رسماً ہی پکارا جائے
ہم نے مانا کہ کبھی پی ہی نہیں
پھر بھی خواہش کہ سنبھالا جائے
آج تنہا نہیں جاگا جاتا
رات کو ساتھ جگایا جائے
حرف لکھنا ہی نہیں کافی ہے
آؤ اب حرف مٹایا جائے
غزل
بے تحاشہ اسے سوچا جائے
ثروت زہرا