سوال اندر سوال لے کر کہاں چلے ہو
یہ آسمان ملال لے کر کہاں چلے ہو
جنوں کے رستے میں یہ خودی بھی عذاب ہوگی
خرد کا کوہ وبال لے کر کہاں چلے ہو
کہاں پہ کھولو گے درد اپنا کسے کہوگے
کہیں چھپاؤ، یہ حال لے کر کہاں چلے ہو
نہا رہے ہو عذاب ہجراں کی بارشوں میں
ذرا سی گرد وصال لے کر کہاں چلے ہو
سراب پینے کی آرزو ہے تو جواب دے دو
سفر میں خواب و خیال لے کر کہاں چلے ہو
چلے ہو جب تو ہمارے موسم بدل چکے ہیں
سنو یہ میرے وبال لے کر کہاں چلے ہو
غزل
سوال اندر سوال لے کر کہاں چلے ہو
ثروت زہرا